افغانستان میں شہید ہونے والے طاہر خان داوڑ کون تھے ؟ایسی معلومات سامنے آ گئیں کہ جا ن کر ہر پاکستانی کے دل میں شہید پولیس آفیسر کی عزت اور قدرو منزلت میں مزید اضافہ ہو جائے گا
پشاور کے سینئر پولیس آفیسر اور اسلام آباد سے پراسرار طور پر لاپتا ہونے کے بعد افغان صوبے ننگر ہار میں ملک دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایس پی طاہر خان داوڑ کی میت پاکستانی حکام کے حوالے کر دی گئی ہے اور حکومت نے بھی ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پختہ عزم کیا ہوا ہے تاہم وفاقی دارالحکومت سے سینئر پولیس آفیسر کی گمشدگی اور افغانستان میں ان کا قتل سارے پاکستانیوں کے لئے ایک معمہ بنا ہوا ہے .
مقتول ایس پی طاہر داوڑ کون تھے ،کہاں تعلیم حاصل کی،پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کب شامل ہوئے ،ان کے دشمن کون تھے، اور اس سے پہلے انہیں کب اور کہاں نشانہ بنایا گیا ؟ایسی معلومات سامنے آ گئیں جنہیں جان کر ہر پاکستانی کے دل میں شہید پولیس آفیسر طاہر داوڑ کی عزت اور قدرو منزلت میں مزید اضافہ ہو جائے گا . برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں شہید ہونے والے ایس پی محمد طاہر داوڑ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ایک نڈر اور فرض شناس افسر کے طور پر جانے جاتے تھے،انہوں نے اپنے پیچھے بیوہ، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کو سوگوار چھوڑا ہے.
محمد طاہر داوڑ کا تعلق قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے گاؤں خدی سے تھا،وہ4 دسمبر 1968 کو شمالی وزیرستان کے علاقہ خدی میں پیدا ہوئے .انھوں نے پرائمری سے لے کر ڈگری سطح تک کی تعلیم شمالی وزیرستان سے حاصل کی تاہم بی اے کرنے کے بعد وہ کچھ عرصے تک ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال، شمالی وزیرستان میں کمپاؤنڈر کے طور پر ملازمت کرتے رہے جبکہ وہ ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے.
1990 کے عشرے میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے محکمہ پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہونے والے طاہر داوڑ نے تقریباً 23 سال تک محکمہ پولیس میں ملازمت کی اور اس دوران وہ اے ایس آئی سے ترقی کرتے ہوئے ایس پی کے عہدے تک پہنچے.طاہر داوڑ نے بیشتر ملازمت شمالی وزیرستان سے متصل ضلع بنوں میں کی جہاں وہ بطور ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے.
ایک مرتبہ بنوں میں ان کے گھر پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں ان کے ایک محافظ ہلاک جبکہ وہ خود محفوظ رہے تھے. دوسری مرتبہ ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں ان کے ہاتھ اور پاؤں پر گولیاں لگی تھیں. دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں پر انہیں محکمہ پولیس کے سب سے بڑے اعزاز قائد اعظم پولیس میڈل سے بھی نوازا گیا تھا.
مقتول طاہر دواڑ ایک پیشہ ور سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی اور سماجی حلقوں میں بھی کافی مقبول سمجھے جاتے تھے.انہوں نے پشتو زبان میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ اکثر اوقات پشتو زبان میں شوقیہ شعر و شاعری بھی کیا کرتے تھے.انھوں نے پشتو زبان میں کئی غزلیں اور نظمیں لکھیں جنہیں مقامی فنکاروں نے میوزک کے ساتھ گایا بھی ہے.
No comments:
Post a Comment